ایڈیٹر کی ڈھیروں ڈاک سے صرف ایک خط کاانتخاب نام اورجگہ مکمل تبدیل کر دیئے ہیں تاکہ رازداری رہے۔ کسی واقعہ سے مماثلت محض اتفاقی ہو گی۔اگر آپ اپنا خط شائع نہیں کراناچاہتے تو اعتماد اور تسلی سے لکھیں آپ کا خط شائع نہیں ہوگا۔ وضاحت ضرور لکھیں
محترم جناب حکیم صاحب السلام علیکم! کچھ دن پہلے ہی عبقری رسالہ کسی ملنے والے کے ذریعے ملا۔ میں نے بہت شوق سے پڑھا اور انشاءاللہ مستقل طور پر اس کی خریدار بن گئی ہوں‘ اللہ آپ کو اجر عظیم دے۔ میرا نام شمائلہ ہے۔ میری عمر 35 سال ہے۔ طلاق یافتہ ہوں۔ 10 سال پہلے طلاق ہوئی تھی ایک بچی ہے۔ آٹھویں میں پڑھتی ہے۔ میں طلاق کے کافی عرصے بعد سے اپنا گھر آباد کرنے کا سوچ رہی تھی۔ لیکن میرے والدین اس بات پر راضی نہیں ہوتے۔ میں نے بہت کوشش کی کہ ابو مان جائیں اور مجھے اپنا گھر عزت مل جائے مگر میرے ابو نے بھی کوشش نہیں کی بلکہ ہمیشہ ان لوگوں کو بھی منہ توڑ جواب دیا جو کہ رشتہ لے کر آئے۔
رفتہ رفتہ رشتے آنا ختم ہوگئے۔ ابو خوش ہوگئے‘ ابو کے خاندان میں دوبارہ شادی نہیں ہوتی‘ بہت لوگوں نے ان کو سمجھایا‘ کرتے کرتے مجھے 10سال ہوگئے‘ میں گناہ کی طرف چلی گئی‘ ماں کو اشارتاً سمجھایا کہ ماں میں عزت چاہتی ہوں‘ گناہ سے بچنا چاہتی ہوں‘ ویسے ہمارا گھرانہ بہت مذہبی بنتا ہے‘ سارا خاندان نمازی ہے‘ مگر اس معاملے میں وہ اسلام کو پیچھے کردیتے ہیں۔ میرا ایک بھائی میرے حق میں بولتا تھا وہ حادثے میں وفات پاگیا۔ ہمارے گھر میں والد سخت مزاج ہیں‘ ان پر کسی کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔ وہ بہت نڈر زبان قسم کے انسان ہیں۔
اپریل میں میرے لیے لاہور سے ہی رشتہ آیا‘ ابو نے پہلے ڈرامہ کیا کہ پتہ نہیں کیسے لوگ ہونگے تمہاری بچی بھی ہے پھر یہ شور کیا کہ تمہاری عمر ہے کوئی نکاح کی۔ بہرحال میں نے بہت سمجھایا کہ ابو میں تنگ آگئی ہوں‘ ہر بندے کی مجھ پر نظر ہے‘ میں بھٹک گئی ہوں‘ توبہ کرکے عزت چاہتی ہوں‘ میرے والدین ٹس سے مس نہیں ہورہے۔ اتنے سخت ہیں کہ ان لوگوں نے رشتہ لے کر آنا تھا ماں نے ان کو گھر نہیں آنے دیا۔ میری میرے والدین سے تین ماہ سے بات چیت بند ہے میں گنہگار ہوں پر ان کی شکل نہیں دیکھنا چاہتی۔ وہ میری جوانی‘ زندگی خوشیوں گناہوں کی ذمہ داری ہیں‘ میں نے لاہور سے آنے والے رشتہ پر شکر ادا کیا کہ چلو میں بھی عزت سے اپنے گھر والی ہوجائوں گی مگر والدہ نے بے عزتی کردی۔ میں نے بے شمار وظائف کیے تعویذ کروائے‘ دن رات عبادت کی‘ معافی مانگی کہ اللہ مجھے اور گندگی سے بچا کر عزت دے دے‘ خاوند کا نام دے دے‘ طلاق یافتہ عورت کا کوئی مقام نہیں ہوتا۔ میں بہت سے پیر فقیر آزما چکی ہوں۔ مشکل سے مشکل ترین وظائف کرچکی ہوں۔ مگر میرے والدین پر ایک فیصد بھی اثر نہیں ہوتا۔ وہ بس اسی ضد پر قائم ہیں کہ ہمارے خاندان کی یہ رسم نہ ٹوٹ جائے۔ ہم پٹھان ہیں‘ میرے والدین کا دل کسی کلام‘ وظیفے دعا سے نرم نہیں ہوتا ہر طریقہ کرلیا‘ ہر شخص نے سمجھایا مگر مایوسی ہی مایوسی ہوئی۔
والدین کے سر پر بوجھ ہوں
محترم حکیم صاحب السلام علیکم! میں ایک بہت پریشان حال خاتون ہوں‘ میری عمر 29 سال ہے اور میرا ایک 6 سال کا بیٹا ہے۔ میری تعلیم ایم بی اے ہے۔ میری شادی تقریباً 7 سال پہلے ہوئی جو کہ وٹہ سٹہ تھی۔ میں اپنے سسرال تقریباً 5 ماہ رہی۔ انہوں نے مجھے اتنے کم عرصے میں گھر سے نکال دیا اور بیٹے کی پیدائش کے تقریباً 2 ماہ بعد طلاق دے دی۔ اپنے بیٹے کو لے کر میں اپنے والدین کے گھر رہائش پذیر ہوں۔ میرے بیٹے کو اس کے باپ نے ایک نظر آج تک نہیں دیکھا۔ نہ ہی کسی دادا دادی نے کوئی تعلق رکھا۔
میں والدین کے سر پر بوجھ بن کر بیٹھ گئی ہوں‘ آخر بھابیوں نے اپنا رویہ کچھ عرصہ بعد بدل لیا اور مجھے گھر سے نکالنے کی کوششیں شروع کردیں۔ میرے والدین نے آنکھیں بند کرکے میرا رشتہ ایک نابینا آدمی سے طے کردیا اور نکاح کروا کے مجھے رخصت کردیا۔ وہ شخص نہ صرف نابینا تھا بلکہ حقوق زوجیت سے بھی قاصر تھا۔ اس نے مجھے تقریباً دس ماہ اپنے نکاح میں رکھا۔ ہر وقت لعن طعن کرتا رہتا اور آخر دس ماہ بعد بغیر کسی وجہ کے مجھے طلاق دیدی۔ وہ اپنے دوستوں کو گھر میں بلاتا اور مجھے ان کے ساتھ گپ شپ کرنے کو کہتا۔ جب میں انکار کرتی تو وہ ناراضگی کا اظہار کرتا۔ میری سمجھ میں تو طلاق کی یہی وجہ آتی ہے باقی کچھ نظر نہیں آتا۔
خیر میری زندگی مکمل طور پر برباد ہوچکی ہے۔ جس عورت کا نکاح دو مرتبہ ہواور دو مرتبہ طلاق ہوجائے اس کی حیثیت اس دنیا میں خاک سے بھی بدتر ہوجاتی ہے اس کا اندازہ یقیناً آپ کو بھی ہوگا۔
اب ہر وقت میری ٹانگوں میں درد رہتا ہے۔ سب لوگ کہتے ہیں کہ تم پر کسی نے کوئی جادو کیا ہوا ہے یہاں تو سب لوگ پیسہ کمانے والے ہیں۔
اب میں چاہتی ہوں کہ مجھے کوئی نوکری مل جائے تاکہ میں اپنا اور اپنی بیٹی کا پیٹ پال سکوں۔ میں جہاں بھی کوئی اشتہار نوکری کیلئے آتا ہے اپنے کاغذات جمع کرواتی ہوں کام ہوتے ہوتے رہ جاتا ہے۔ جس کام میں ہاتھ ڈالتی ہوں وہ نہیں ہوتا۔ ہر طرف ناکامی کا سامنا ہے۔
(قارئین الجھی زندگی کے سلگتے خط آپ نے پڑھے ، یقیناآپ دکھی ہو ئے ہو ں گے ۔ پھر آپ خو د ہی جواب دیں کہ ان دکھوں کا مدا و ا کیا ہے ؟)
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں